فلمی ہیرو بننے کا شوقین تھا لیکن پھر کیا ہوا؟
عادات ‘ مزاج‘ طبیعت اور دن رات کی سوچوں کا اثر جہاں انسان کی اپنی طبیعت جسم اور رہن سہن پرپڑتا ہے‘ وہاں یہ چیزیں نسلوں میںمنتقل ہوتی ہیں۔ میرے ایک کرم فرما نے اپنے چچا کا ایک واقعہ سنایا :ساری عمر انہوں نے اپنے مزاج اور طبیعت کی زندگی گزاری‘ انہیں فلمی ہیرو بننےکا بہت شوق تھا۔ ایک چھوٹے سے شہر میںایک سفید پوش گھرانے سے ان کا تعلق تھا لیکن وہ اکثر آج سے پچاس سال قبل فلمی دنیا کے ہیرو سےملاقات کرنے‘ ان کے قریب بیٹھ کر فوٹو کھنچوانے اور پھر ان سے اپنا رشتہ ناطہ جوڑنے اور حتیٰ کہ انہوں نے اپنے نام کےساتھ ’راہی‘ لکھا کہ وہ ایک فلمی ہیرو کے نام کاحصہ تھا پھر کیا ہوا؟
ستم ظریفی دیکھیے کہ آخری وقت ہے اور۔۔۔!!
زندگی کے دن رات گزرتے گئے‘ غربت سفید پوشی میں لیکن ان کا مزاج‘ ان کی طبیعت وہی رہی حتیٰ کہ بڑھاپے اور بیماری نےآلیا‘ بڑھاپے اور بیماری نے بڑے سےبڑے ظالم‘ شخص اور غافل انسان کو بھی ذکر‘ تسبیحات‘ اعمال مانگنا یاد آتا ہے لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ وہ شخص آخری وقت میں بھی اپنے سینے پر ریڈیو رکھ کر جس دور میں ریڈیو جس گھر میں ہوتی تھی اس گھر کی انوکھی شان ہوتی تھی‘ وہ سنتے رہتے تھے اور اسی ریڈیو کی دھنک رمک ساز و آواز میں ان کے دن رات گزرتے تھے‘ آخرکار آخری ہچکی ریڈیو کے ساتھ اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
یہاں تک نہ ہوا واقعہ یہ ہوا کہ ان کی اگلی نسلیں بھی اسی ترتیب پر چل نکلیں اور ایسی چلیں کہ ایک ایک فرد اسی ترتیب پر چلا۔
سنت اللہ یہی ہے کہ جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے
مجھےاس پر ایک واقعہ یاد آیا جو یقینا ًمیری اس بات کی ترتیب کو بہت تقویت دے گا‘ حضرت بابا فرید شکرگنج رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا‘ کہنے لگا: میں تنبوڑے مرمت کرتا ہوں جسے آج کے دور میں گٹار کہتے ہیں‘ ان کی تاریں بناتا ہوں اور اس کے سازو آواز اور دھنوں کو ترتیب دیتا ہوں۔ آپ کے پاس دعا کے لیے آیا ہوں‘ میرا بیٹا بھی آپ جیسا درویش ولی اور اللہ کا فقیر بن جائے۔ حضرت ٹکٹکی باندھ کر اس کی طرف دیکھتے رہے‘ تھوڑی دیر کےبعد فرمایا: یہ تیری غلط فہمی ہے‘ ایک ہے سنت اللہ‘ ایک ہے قدرت اللہ‘ اللہ چاہے اپنی قدرت کے معجزات دکھائے ‘بدوں میں سے نیک اور نیکوں میں سے بد‘ یہ تو ہے قدرت اللہ۔ یعنی اللہ اپنی قدرت کے معجزات دکھاتا ہے اور ایک ہے سنت اللہ‘ اللہ کی سنت ہے گندم بودیں گے تو گندم ہی کاٹیں گے‘ یعنی
جیسی کرنی ویسی بھرنی نہ مانے تو کرکے دیکھ
جنت بھی ہے‘ دوزخ بھی ہے‘ نہ مانے تو مر کےدیکھ
لہٰذا حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تو پہلے اپنا پیشہ بدل اور مرنے سے پہلے اس پیشے کو چھوڑ اور اس پیشے سے توبہ کر ‘پھر اپنے رزق حلال کےپیشے کو اپنی نسلوں میں چھوڑ کر جا‘ پھرتیری نسلوں میں فرید جیسے لوگ آئیں گے۔ ورنہ فرید نہیں آئیں گے کچھ اور آئیں گے۔
آئیں نسلیں سنوار جائیں!
اللہ والوں کی صحبت میں اگر انسان کی زندگی بدل جائے‘ پیشہ بدل جائے‘ دن رات بدل جائیں تو پھر قدرت کا نظام ہوتا ہے‘ اگلی نسلیں سنور جاتی ہیں اورانگلی نسلوں میں نور ہدایت‘ نور ولایت اور راہ طریقت ایسی ملتی ہے کہ وہ خود رہبر و رہنما بن جاتے ہیں۔ موجودہ دور کےایک بزرگ کے پاس مجھے جانا ہوا‘ ان کا خادم نسلی اور نسل در نسل میراثی ہے‘ لیکن چہرے پر نورہے اور اس کے بیٹوں کی زندگی میں حیرت انگیز تبدیلی ہے۔
آئیے! اپنے دن رات پہلے خود بدلیں اور اگر آپ کا کوئی عزیز ‘محسن ‘بھائی ‘دوست ہے تو اس کے دن رات بدلنے کا فکر کریں۔ پوری محنت کریں‘ پوری کوشش کریں‘ پوری جان ماریں پھر فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں